حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم بندر کیسے بن گئیHazrat dawood as ka waqia
؟اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم کے نام سے شروع جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے ایک ایسی قوم جس پر اللہ تبارک و تعالی نے اپنا دردناک عذاب نازل فرمایا اور اس کام کے تمام لوگوں کو بندر بنا دیا اس قوم کے وہ کونسا ایسا گناہ کرتے تھے جس کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر دردناک عذاب نازل فرمایا اور یہ لوگ بندر بننے کے بعد کتنی دیر زندہ رہے تھے اور پھر ان کو کس قدر دل اج موت ای جب یہ لوگ بندر بن گئے تو یہ لوگ اپنے عزیز و اقارب کو دیکھ کر ان سے کیا کہتے تھے اور آج کے دور میں پائے جانے والے بند رکھے کی نسل میں سے ہیں ان تمام تر سوالات کے جوابات قرآن و حدیث کی روشنی میں آج کی اس ویڈیو میں ہم آپ کو بتائیں گے لہذا آپ سے گذارش ہے کہ ہماری ویڈیو کو آخر تک ضرور دیکھیے گا انسانوں کے بندر بننے کی ابتدا حضرت داؤد علیہ السلام کے دور سے ہوئی اس واقعے کا پس منظر کچھ یوں ہے حضرت داؤد علیہ السلام اور ان کی قوم
سمندر کے کنارے اللہ نامی گاؤں میں رہتے تھے اور ان کی تعداد 70 ہزار کے قریب تھی یہ قوم بڑی خوش حال تھی اور اللہ تبارک و تعالی کی فرمانبردار قوم تھی اس قوم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا ہر طرف سرسبز و شاداب باغات اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھیHazrat dawood as ka waqia 2024
اور اللہ تبارک و تعالی کی بے پناہ کرم نوازی تھے یہ لوگ اپنی زندگی میں بہت ہی خوش تھے حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم جو کہ سمندر کے کنارے رہتی تھی کا ان پر یہ خاص کرم تھا کہ سمندر کے اس کنارے پر بے پناہ مچھلی آتی تھیں
جن کا یہ لوگ کاروبار کرتے ہیں اور بہت ہی خوشحالی والی زندگی
گزارتے تھے جب یہ کام اللہ تبارک و تعالی کی نعمتوں کی وجہ سے خوشحال ہوگی اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانی پر اتر آئیں اور طرح طرح کے گناہوں کے اندر مبتلا ہو گئی اور پھر ایک دن اللہ تبارک و تعالی نے اس قوم کا امتحان لینے کا ارادہ کیا اور حضرت داؤد علیہ السلام کو وحی بھیجی کہ اپنی قوم سے کہہ دے کہ وہ سنیچر کے دن یعنی ہفتے والے دن ہی مچھلی کا شکار کرنا بند کر دیں اس طرح اللہ تبارک و تعالی نے حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم پر ہفتے والے دن مچھلیوں کا شکار حرام فرما دیا اور پھر یہاں سے اس قوم کی بربادی شروع ہوگئی حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی قوم کو بتایا کہ اللہ تبارک و تعالی نے ہفتے والے مچھلیوں کے شکار کو حرام قرار دے دیا ہے تو وہ لوگ بہت ہی زیادہ پریشان ہوگئے اور ساری قوم سر جوڑ کر بیٹھ گئی کیونکہ ہفتے کا دن ہیں وہ دن تھا جس میں مچھلیاں وافر مقدار میں آتی تھی اور خود بخود کنارے پر آ جاتی تھی اور باقی
حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم
دن ایسے تھے کہ بہت کم اور نہ ہونے کے برابر مچھلی پکڑی جاتی تھی اس قوم کا گزر بسر چونکہ مچھلیوں کے شکار پر تھا اس وجہ سے اللہ تبارک و تعالی کا یہ حکم سن کر یہ کام پریشان ہوں گی یہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے یہ ایک آزمائش ہے پھر ایک دن شیطان نے ان کو وسوسہ ڈالا کہ سمندر سے نکال کر خشکی میں بڑے بڑے ہاؤس بنا لیے جائیں ہفتے والے دن مچھلی آئیں گے تو اناڑیوں سے ہوکر اور بڑے بڑے حوضوں میں آجائیں گے اور اس ان نالیوں کا منہ بند کر دیا جائے اور پھر اگلے دن یعنی اتوار والے دن ان کو پکڑ لیا جائے شیطان اس قوم کے لوگوں کو بھگا لایا کہ اس طرح ہم اپنے والدین شکار سے بھی بچ جائیں گے اور مچھلیاں بھی ہاتھ آجائیں گے اور وہ بھی پکڑی جائے گی بہت سے لوگوں کو یہ لباس کی اچھی لگی اور انہوں نے ایسا کرنا شروع کر دیا اور سمندر سے چھوٹی چھوٹی نالیوں سے نکال کر بڑے بڑے ہجوم میں ڈال دیں جس کے ذریعہ پر مقدار میں مچھلیاں نہ میں داخل ہو جاتی ہیں اس قوم کے بد بخت لوگوں کو شیطان کا یہی بہت پسند آیا لیکن اس قوم نے یہ نہ سوچا کہ جب مچھلیاں سمندر سے ہاتھ میں آ کر قید ہوگی تو پھر مچھلیوں کا شکار ہیں ہوگیا اس لیے یہ شکار بھی ہفتے والے دن ہی قرار پایا جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے حرام قرار دیا تھا اس موقع پر یہودیوں کے تین گروہ ہوگئے کچھ لوگ ایسے شکار کے اس شیطانی حملے سے منع کرتے تھے اور ناراض ہو بیزار ہوکر شکار سے باہر ہیں اور کچھ لوگ اس کام کو دل سے برا جان کر خاموش رہے لیکن انہوں نے انکار نہ کیا اور دوسروں کو منع بھی نہیں کرتے تھے بلکہ یہ لوگ منع کرنے والوں سے یہ کہتے تھے کہ تم لوگ ایسی قوم کو نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ تبارک و تعالی عنقریب ہلاک کرنے والا ہے اور ان پر اپنا دردناک عذاب نازل فرمانے والا ہے اور اقوام کے کچھ لوگ ایسے تھے جو سرکش اور نافرمان لوگ تھے جنہوں نے اللہ تبارک و تعالی کے حکم کے اعلانیہ مخالفت اور شیطان کے حملے بازی کو مان کر ہفتے والے دن شکار کرنے لگے یہ لوگ اللہ تبارک و تعالی کے حکم کے غلام کھلا مخالفت کرتے ہیں اور ہفتے والے دن مچھلیوں کا شکار کر کے ان کو کھایا کرتے اور بیچا کرتے تھے پیارے دوستو حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کے بارہ سو ایسے نافرمان افراد تھے جو منع کرنے کے باوجود بھی ہفتے کو ان نالیوں کے ذریعے شکار رہے حضرت داؤد علیہ السلام نے ان بارہ سو نافرمانوں کو اللہ تبارک و تعالی کے عذاب سے ڈرایا کہ اللہ تبارک و تعالی کے اس نافرمانی سے باز آ جائیں لیکن وہ لوگ باز نہ آئے اور کھلے عام شکار کرنے لگے چنانچہ وہ لوگ جو اس بات کو برا جانتے تھے ان لوگوں نے اپنے اور ان نافرمانوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جس سے ایک طرف وہ 12سال نہیں مان رہے تھے میں اور دوسری طرف وہ لوگ تھے جو شکار سے باہر ہے حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی قوم کے نافرمانوں کو بارہا سمجھایا لیکن یہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہ آئے اور اسی طرح اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانی کرتے رہے اور شکار کرتے رہے پھر ایک دن حضرت داؤد علیہ السلام نے غضب ناک ہو کر شکار کرنے والوں پر لعنت فرما دیں اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک دن خطا کاروں میں سے کوئی بھی اپنے گھر سے باہر نہیں نکلا یہ منظر دیکھ کر کچھ لوگ ان کی دیواروں پر چڑھ گئے تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ لوگ کس حال میں ہیں ان لوگوں نے ان نافرمانوں کو دیکھا تو سب کے سب بندر کی صورت میں مست ہو چکے تھے اللہ تبارک و تعالی نے ان کی نافرمانی کی وجہ سے ان پر اپنا درد ناک عذاب نازل فرمایا اور ان کو انسانوں سے بندربنا دیا جب لوگ ان مجرموں کا دروازہ کھول کر ان کے گھر میں داخل ہوئے تو وہ بندہ اپنے رشتے داروں کو پہچانتے تھے اور ان کے پاس اگر ان کے کپڑوں کو صدیوں اور زار و قطار روتے تھے لیکن وہ کچھ بول نہ سکے تھے اللہ تبارک و تعالی کے نافرمان بندر بن جانے والے لوگوں کی تعداد بارہ ہزار تھی ان بارہ ہزار لوگوں نے اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانی کی اور اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو بندر بنا دیا جس طرح کہ اللہ تبارک و تعالی سورہ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے اور بے شک ضرور تمہیں معلوم ہے تم میں کہ وہ جنہوں نے ہفتے میں سرکشی کی تو ہم نے ان سے فرمایا کہ ہو جاؤ بند کئے ہوئے ہیں اس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کے بارہ ہزار نفر بندر بن گئے یہ لوگ تین دن تک زندہ رہے اور اس دوران یہ کچھ نہ کھا سکتے تھے اور نہ ہی پی سکتے تھے بلکہ یوں ہی بھوکے پیاسے سب کے سب ہلاک ہو گئے اور تین دن کے اندر سب کے سب مارے گئے اور وہ لوگ جو ان نافرمانوں کو اللہ تبارک و تعالی اس نافرمانی سے منع کرتے تھے اللہ تبارک و تعالی نے ان کو اس عذاب سے سلامت رکھا اور وہ لوگ جو اس کار کو برا جان کر خاموش رہتے تھے میں اللہ تبارک و تعالی نے ان کو بھی اس عذاب سے سلامت رکھا تو بات کرتے ہیں کہ آج کے دور کے بچوں میں سے کیا کوئی بندر کی نسل میں سے بھی موجود ہے یا آج کے دور میں پائے جانے والے بندروں کی نسل میں سے ہیں اس کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال کیا کہ آج کے بندر کی حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم سے ہے تو حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالی جس قوم پر عذاب بھیجتا ہے یا ان کی شکلوں کو مسترد کرتا ہے تو یہ عذاب ان ہی پر ہوتا ہے جن پر وہ عذاب نازل ہوا تھا اور اس کے بعد اللہ تبارک و تعالی ان لوگوں کو ہلاک کر دیتا ہے اور ان کے آگے نسل نہیں بڑھتی اس لیے یہ بات غلط ہے کہ کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ آج کے بندوں میں بھی حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کے بندر بننے والوں کی نسل موجود ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے وہ لوگ صرف اور صرف تین دن زندہ رہے گی
حضرت داؤد علیہ السلام نے غضب ناک
اور اس کے بعد سب کے سب ہلاک ہوگئے اور اللہ تبارک و تعالی اس قوم کے نافرمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا
